Saturday 31 May 2014

اقْرَ‌أْ بِاسْمِ رَ‌بِّكَ الَّذِي خَلَقَ




 
اقْرَ‌أْ بِاسْمِ رَ‌بِّكَ الَّذِي خَلَقَ ﴿١﴾ خَلَقَ الْإِنسَانَ مِنْ عَلَقٍ ﴿٢﴾ اقْرَ‌أْ وَرَ‌بُّكَ الْأَكْرَ‌مُ ﴿٣﴾ الَّذِي عَلَّمَ بِالْقَلَمِ ﴿٤﴾ عَلَّمَ الْإِنسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ ﴿٥ سورۃ العلق
پڑھ اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا۔ انسان کو خون سے پیدا کیا۔ پڑھ اور تیرا رب کریم ہے، وہ جس نے قلم سے تعلیم دی۔ انسان کو ان چیزوں کی تعلیم دی جن کو وہ نہ جانتا تھا۔
اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت ﷺ پر وحی کا آغاز علم کے تذکرے سے ہوا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی پہلی صفتِ خلق اور دوسری صفت عطائے علم بیان فرمائی ہے۔ مزید یہ کہ حاملِ وحی و قرآن، رسولِ آخر الزمانؐ کو حکم دیا کہ وہ یہ دُعا فرماتے رہا کریں
وَقُل رَّ‌بِّ زِدْنِي عِلْمًا ﴿١١٤ سورۃ طہ
: تعلیم کیا ہے
تعلیم کی اس اہمیت کے بعد یہ بتانا انتہائی ضروری ہے کہ تعلیم کیا چیز ہے اور معلمِ اول ﷺ کے نزدیک اس کے اساسی اصول کیا ہیں؟ لفظِ تعلیم کا مادہ علم (ع۔ل۔م) ہے جو جہل کی ضّد ہے۔
اَلْعِلْمُ اِدْرَاکُ الشَّیْءِ بِحَقِیْقَتِہٖ
کسی شے کی حقیقت کا ادراک
قرآنِ مجید میں لفظِ علم مختلف صورتوں میں 778 مرتبہ وارد ہوا ہے

: علم کی تعریف
اول) وہ علم جو ذات باری کی صفت خاص ہے اور جو علیم، عالم اور علام وغیرہ صورتوں میں موجود ہے۔
دوم) وہ علم جو مخلوق خصوصاً انسان کو بھی ارزانی ہوا ہے۔
: تعلیم کے اسلامی اصول
اسلام نے علم کا جو تصور دیا ہے اس میں سب سے بنیادی چیز یہ ہے کہ علم کا سرچشمہ ذاتِ باری تعالیٰ ہے۔ انسان کی ہدایت کا علم بھی اِسی کی طرف سے ہے۔ حواس اور عقل و تجربہ بڑے اہم ذرائع ہیں۔ لیکن وحی سب سے اعلیٰ ذریعۂ علم ہے۔ نیز یہ کہ علم کا تعلق محض لوازمِ حیات ہی سے نہیں، مقاصدِ حیات سے بھی ہے۔ یہی وہ تصور ہے جس سے ہمارے نظامِ تعلیم کا پورا مزاج بنتا ہے۔

: تعلیم اور تربیت کا باہمی تعلق ۔1
اسلام نے علم کا جو تصور دیا ہے اس میں تعلیم اور تربیت دونوں کو یکساں اہمیت دی گئی ہے کہ ایک کو دوسرے سے جدا نہیں کیا جا سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کے نظامِ تعلیم میں تعلیم اور سیرت سازی ایک ہی حقیقت کے دو پہلو رہے ہیں اور اس کا اظہار علم و فضل کی اصطلاح سے بھی ہوتا ہے جو علم، نیکی اور اخلاقِ حسنہ میں بڑھے ہوئے ہونے کے مفہوم کو ادا کرتی ہے۔

تعلیم صرف تدریس عام ہی کا نام نہیں ہے۔ یہ ایک ایسا عمل ہے جس کے ذریعے ایک قوم خود آگہی حاصل کرتی ہے۔ اور یہ عمل اس قوم کو تشکیل دینے والے افراد کے احساس و شعور کو نکھارنے کا ذریعہ ہوتا ہے۔ یہ نئی نسل کی وہ تعلیم و تربیت ہے جو اسے زندگی گزارنے کے طریقوں کا شعور دیتی ہے اور اس میں زندگی کے مقاصد و فرائض کا احساس پیدا کرتی ہے۔ تعلیم ہی سے ایک قوم اپنے ثقافتی اور ذہنی ورثے کو آئندہ نسلوں تک پہنچاتی ہے اور ان میں زندگی کے ان مقاصد سے لگاؤ پیدا کرتی ہے جنہیں اس نے اختیار کیا ہے۔ تعلیم ایک ذہنی، جسمانی اور اخلاقی تربیت ہے اور اس کا مقصد اونچے درجے کے ایس تہذیب یافتہ مرد اور عورتیں پیدا کرنا ہے جو اچھے انسانوں اور کسی ریاست کے ذمہ دار شہریوں کی حیثیت سے اپنے فرائض کو انجام دینے کے اہل ہوں۔ ہر دور کے ممتاز ماہرینِ تعلیم کے نظریات کا مطالعہ اِسی تصوّرِ تعلیم کا پتہ دیتا ہے۔

قرآنِ عزیز میں رسول اللہ ﷺ کو تلاوتِ آیات اور تعلیمِ کتاب و حکمت، کے ذریعے تزکیۂ نفوس کا جو مشن تفویض ہوا ہے اس سے تعلیم و تربیت کا باہمی ربط و تعلق بخوبی واضح ہوتا ہے۔
: بامقصد تعلیم ۔2
علامہ اقبالؒ کا خیال بھی یہی تھا کہ اسلام ہماری زندگی اور تعلیم کا مقصد ہونا چاہئے۔ تعلیم کا اولین مقصد یہ ہونا چاہئے کہ طلبہ میں ان کے مذہب اور نظریۂ حیات کی تفہیم و آگہی پیدا کرے اس کے معنی یہ ہوں گے کہ زندگی کا مفہوم اور مقصد دنیا میں انسان کی حیثیت، توحید، رسالت، آخرت اور انفرادی اور اجتماعی زندگی پر ان کے اثرات، اخلاقیات کے اسلامی اصول، اسلامی ثقافت کی نوعیت اور ایک مسلمان کے فرائض اور اس کا مشن انہیں سمجھایا جائے۔ انہیں بتایا جائے کہ وہ کس طرح اعلیٰ مقاصد کے لئے دنیا کی تمام قوتوں کو استعمال کریں۔ تعلیم کے ذریعے ایسے افراد پیدا کرنے چاہئیں جو انفرادی اور اجتماعی زندگی کے بارے میں اسلامی نظریات پر بھرپور یقین کے حامل ہوں اور اسے ان کے اندر ایک ایسا اسلامی نقطۂ نظر پیدا کرنا چاہئے کہ وہ زندگی کے ہر میدان میں اسلامی تعلیمات کی روشنی میں اپنا راستہ خود بنا سکیں۔

:
رسولِ اکرم ﷺ نے فرمایا
لوگوں میں سے درجۂ نبوت کے قریب تر اہلِ علم اور مجاہدین ہیں۔ اہلِ علم اس لئے کہ انہوں نے لوگوں کو وہ باتیں بتائیں جو رسولِ کریمؐ لائے تھے اور مجاہدین اس لئے کہ انہوں نے پیغمبروں کی لائی ہوئی شریعت پر اپنی تلواروں سے جہاد کیا۔

No comments:

Post a Comment